أحد سچے ہوتے ہیں



    
                                                                                                                                 ، وقت تھا بعد نمازِ فجر کا

وہ نماز فجر سے فارغ ہو کر اپنے معمول کے ذکر میں میں مشغول تھا۔ جب اُس کی مسلسل تسبیح کے دانے گراتی انگلیاں بزرگ کی آواز پر رکی تھیں ۔ وہ معلم بزرگ اپنے طالب علم سے مخاطب تھے…….

  

ایک آدمی تھا عرب میں ….

مالدار ، عزت دار ، با وقار…..

اُس کا نام عمرو تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ بہت اچھا تھا ۔ کعبہ آنے والے حاجیوں کیلیے شوربے میں روٹی توڑ توڑ رکھ چھوڑتا جس کو سب کھاتے اور اسے دعائیں دیتے۔ اس پر لوگوں نے اُس کا نام ہاشم رکھ دیا یعنی روٹی توڑنے والا۔

                     " جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اخلاق کے اچھے ہوتے ہیں ، انھیں ایک دنیا اچھے ناموں سے یاد رکھتی ہے "

ہاشم ایک دفعہ ملک شام گیا تو راستے میں مدینہ میں ایک عورت سے شادی کر لی ۔ کچھ دن وہاں ٹھرا اور ملک شام روانہ ہو گیا۔ اس سفر میں اسکا انتقال ہو گیا اِدھر اُس کی بیوی کے پاس بیٹا پیدا ہوا۔ چونکہ ہاشم کے خاندان والے اِس شادی سے ناواقف تھے تو بچہ ماں کے پاس پلتا رہا ۔

اس کےبال بلکل سفید تھے ، اِس لیے اُس کا نام شیبہ (سفید بالوں والا ) رکھا گیا ۔ شیبہ بارہ سال کا ہوا تو ہاشم کے بھائی مطلب کو اِس کا علم ہوا ۔ مطلب کیلیے یہ ایک جزباتی دھکچہ تھا ۔ وہ فوراً مدینہ گیا اؤر اُسکی ماں سے اصرار کر کے اُسے اپنے ساتھ لے آیا۔

عرب میں لوگ سفر کی واپسی پر نوجوان غلام خرید لایا کرتے تھے۔ شیبہ جب مطلب کے ساتھ شہر داخل ہوا تو لوگ سمجھے مطلب نیا غلام خرید کر لایا ہے ۔ وہ اِس لڑکے کو عبدالمطلب پکارنے لگے ۔ یعنی مطلب کا غلام ۔

مطلب نے کلئیر کر دیا کہ شیبہ اُسکا بھتیجا ہے ۔ لیکن لوگوں میں اُس کا نام عبدالمطلب ہی پڑ گیا ۔ اور آج ہم سب اُنھیں عبدالمطلب کے نام سے ہی جانتے ہیں۔

پھر معلم نے  اپنے شاگرد سے کہا 

                                          "لیکن میں یہ قصہ تمہیں کیوں سنا رہا ہوں ؟ ٹھرو…."

اور پھر اُسی سنجیدگی سے اپنی بات جاری رکھی تھی…

عبدالمطلب مکہ کے اعلٰی اور معزز خاندان میں سے تھے۔اگر تم اُن لوگوں کی تاریخ پڑھو تو دیکھو گے کہ یہ بہت اُوپقنچے اخلاق کے عظیم لوگ تھے ۔

با وقار ، بہادر اور جری……

یہ ہماری طرح چھوٹے چھوٹے مفادات کے پیچھے بڑے بڑے سمجھوتے نہیں کرتے تھے ۔ یہ دولت اور قیمتی چیزوں کے انبار اپنے اردگرد لگا کر خود کو غلام نہیں بناتے تھے ۔ 

                 "یہ آزاد لوگ تھے "

عبدالمطلب کی مکہ میں بہت عزت اور ناموری تھی ۔

خوبصورت ، نڈر اور دل کے سچے ……

اُنھیں ایک رات خواب میں کسی کی آواز آئی کہ ….

                                                           "زم زم کا کنواں کھود دو"

وہ اٹھے اور دیکھا کوئی نہیں تھا ۔وہ اکیلے تھے ۔

زم زم کا کنواں کئی صدیاں پہلے بنو جرہم نے مکہ چھوڑتے وقت دفن کر دیا تھا ۔ ساتھ میں انھوں نے کعبہ کے سونے کے دو ہرن ،قدیم تلواریں زرہیں وغیرہ بھی اس میں دفن کی تھیں ۔ 

یہ سب نیشنل ٹریژر تھا ۔ مگر عبدالمطلب کو سمجھ نہ آسکا کہ وہ اِسکو کیسے کھودے ۔ اگلی رات انھوں نے پھر سے دیکھا کہ کوئی اُن سے کہہ رہا ہے …

"زم زم کا کنواں کھود دو۔ تم اسے کھودو گے نہیں تو پہچتاو گے۔ یہ تمہارے آباؤاجداد کی طرف سے تمھارا تفحہ ہے۔ یہ نہ کبھی سوکھے گا نہ آسکا پانی کم ہو گا۔ یہ حاجیوں کی پیاس بجھانے کا پانی ہوگا"

عبدالمطلب نے پوچھا یہ کہاں ہے؟

تو جواب ملا 

               "ٹیلے کے پاس جہاں کوا چونچ سے زمین پر دستک دے رہا ہے "

اگلی صبح وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ کعبہ کی طرف گئے۔ قریبی ٹیلے پر ایک کوا اڑتا ہوا آیا اور اپنی چونچ سے زمین رگڑنے لگا ۔ دونوں باپ بیٹے نے کدالیں لیں اور زمین کھودنے لگے ۔ یوں صدیوں سے دفن کنواں دریافت ہوگیا اور خزانہ بھی مل گیا ،مگر…..

وہاں دوسرے لوگ بھی اکھٹے ہونے لگے اور کہنے لگے اس میں ہمارا بھی حصہ ہے ۔ مگر عبدالمطلب کا کہنا تھا کہ یہ خزانہ ہمارا ہے اسے ہم نے کھودا ہے ۔

عبدالمطلب وہاں اکیلے تھے انکا صرف ایک ہی بیٹا تھا۔اس وقت انھیں اپنا آپ بہت کمزور لگا ۔ گوکہ انھیں  عد میں سارا خزانہ مل گیا اور کنویں میں سے حصہ بھی لیکن اُس انھوں نے یہ دعا مانگ لی کہ

                                                                       " اللہ مجھے  دس بیٹے دیں تو وہ ایک کو کعبہ کے پاس قربان کر دونگا"

اب معلم خاموش ہوا تھا …..

تب تسبیح کے دانے گرانے والے اُس شخص کی تجسس سے بھری آواز آئی تھی …..

 تو کیا اللہ نے عبدالمطلب کو دس بیٹے دیے؟

معلم اُس کی بات سن کر مسکرایا تھا ۔ نظریں آسمان پر جمی تھیں ۔

"انسان جب شدید تکلیف کی حالت میں اللہ سے کسی سودے کا وعدہ کر لیتا ہے تو آزمایا بھی جاتا ہے ۔ یہ نہیں ہے اس کی قسمت بدل جاتی ہے ۔ یہ چیز اسے پہلے بھی ملنی تھی مگر وعدے کے باعث وہ اسکی قوتِ ارادی کی آزمائش بن جاتی ہے "

اس شخص نے پھر سوال کیا ….

عبدالمطلب کی قوتِ ارادی کیسی تھی؟

                                             "میرے اور تمھارے سے بہتر تھی "معلم نے جواب دیا ۔ 

پھر اللہ نے اُنھیں کئی بیٹے دیئے ۔دس ۔۔۔ یا شاید اس سے بھی ذیادہ ۔۔جب وہ جوان ہوئے تو عبدالمطلب نے اپنا وعدہ نبھانے کا سوچا ۔ وہ ہماری طرح اللہ کے لیے کم ترین نہیں دیتے تھے ، بہترین دیتے تھے ۔ 

انھوں نے قرعہ ڈالی اور عبداللہ کے نام کی نکلی ۔۔۔۔

اُس شخص نے چونک کر پوچھا ۔۔۔۔۔    

ہمارے رسول حضرت محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم کے والد کا؟

" ہاں " معلم نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوے سر اثبات میں ہلایا ۔

مگر عبداللہ کے ماموں وغیرہ  آڑے آ گئے ۔ کہتے اِسے قربان ہونے نہیں دیں گے ۔ مگر عبدالمطلب وعدے کے سچے تھے ۔

"ایک آدمی جو اتنے برس ایک وعدے کے ساتھ جیا ہو وہ خائن نہیں ہوتا"

پھر ایک سوال پوچھا گیا …..

تو کیا انھوں نے عبدللہ کو قربان کر دیا ؟ 

"نہیں " وہ ایک کاہنہ عورت کے پاس معاملہ لے گئے ۔

اُس نے کہا ایک پرچی پر عبدللہ کا نام لکھو اور دوسری پر دس اُونٹ، پھر قرعہ نکالو ۔ عبدالمطلب نے ایسا ہی کیا ۔ پھر عبداللہ کا نام نکلا ۔ عورت بولی ُونٹ کی تعداد بڑھاتے جاؤ یہاں تک کہ اللہ راضی ہو جائے ۔

سو وہ لوگ اُونٹوں کی تعداد بڑھاتے گئے ۔یہاں تک کہ سو اُونٹوں کی قرعہ ڈالی گئی ۔ تو قرعہ اُونٹوں کے نام نکلی ۔

سو عبدالمطلب نے یہ گمان کیا کہ اللہ راضی ہے اور سو اُونٹ قربان کیے گئے۔ عبداللہ کو بچا لیا گیا ۔

 "تب سے آج تک مسلمانوں میں ایک انسان کی دیت سو اُونٹ مقرر ہے "

 "تبھی ہمارے رسول حضرت محمد صلٰی اللہ علیہ وسلم خود کو دو ذبیہوں کی اولاد کہتے تھے"

اُس شخص نے پھر سے سوال کیا تھا …

                                            مگر وعدہ تو پورا نہیں کیا عبدالمطلب نے ؟ کفارہ ہی دیا ۔ پھر اتنے برس کے وعدے کا کیا فائدہ ہوا؟

اللہ تعالٰی سے انسان فائدے اور نقصان کے لیے کمٹمنٹ نہیں کرتا ۔ اپنے اور اللہ کے تعلق کو مظبوط کرنے کیلیے کرتا ہے ۔ ہم اللہ سے وعدہ کر کے چند دن میں ہی توڑ دیتے ہیں ۔ مگر ہمیں عبدالمطلب کو یاد رکھنا چاہیے ۔ جس نے اتنے برس اپنے وعدے کو پال پوس کر  جوان کیا ۔

اگر تم اللہ سے کوئی وعدہ لیتے ہو اور مقررہ گھڑی آنے پر تمھارہ دل کمزور پڑنے لگا جائے ،تو بھی اُس وعدے کو نبھانے کی کوشش کرو ۔ اللہ کو تم سے کوئی چیز چھین لینا مقصود نہیں ہے ۔ وہ صرف تمھیں کھو دینے کے خوف اور پا لینے کے لالچ سے آزاد کر کے ایک مظبوط انسان بنانا چاہتا ہے ۔ ہم جتنا وعدوں کو نبھاے گے اتنے مظبوط بنتے جائے گے ۔ اور آخر میں اللہ خود ہی کوئی راہ نکال کر ہمیں ہماری محبوب شے لُٹا دے گا ۔

  معلم اپنا موضوع مکمل کر چکا تھا ۔


ایک بات جو قابلِ غور تھی ……


                                        "عبدالمطلب کو مظبوط ہونے کیلئے دس بیٹے چاہیے تھے۔ مگر کیا آپکو نہیں لگتا کہ عبدالمطلب کو دس بیٹوں کے بجائے اُس کے وعدوں نے مظبوط کیا ؟؟؟؟؟



Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سچ کڑوا ہوتا ہے؟

Nobody's Thinking About You

قربِ الٰہی