احتساب



معمول کے مطابق دربار سجا تھا ۔ بادشاہ کا موڈ آج بہت اچھا تھا ۔

بادشاہ اپنے نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا :

تمھاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟

وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے مخاطب ہوا:

"بادشاہ سلامت آپکی سلطنت بہت بڑی ہے اور آپ اس دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں ۔

اگر  اس سلطنت کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں اس دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوتا"

وزیر خاموش ہو گیا ۔

بادشاہ نے زور دار قہقہہ لگایا اور پھر اپنے وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مخاطب ہوا:

اگر میں تمیں اسکا آدھا حصہ دے دوں تو؟

وزیر نے گھبرا کر جواب دیا :

بادشاہ سلامت میں اتنا خوش قسمت کہاں ہو سکتا ہوں ؟

بادشاہ نے فوراً دو  احکامات لکھنے کو کہا :

پہلا سلطنت کا آدھا حصہ وزیر کو دینے کا حکم جاری کیا۔

اور ساتھ ہی دوسرا جس میں وزیر کا سر قلم کرنے کا حکم جاری کیا۔

وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا ۔

بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر سے مخاطب ہوا کہ 

" تمہارے پاس تیس دن ہیں ۔ اور میں تمہیں تین سوال دیتا ہوں۔ ان تیس دنوں میں تم نے ان تین سوالوں کے جواب ڈھونڈنے ہیں ۔ اگر تم  سہی جواب ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے تو دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گااور پہلے حکم کے مطابق آدھی سلطنت تمھاری  ۔ اور اگر تم سہی جواب نہ ڈھونڈ سکے تو پہلا حکم منسوخ کر دیا جائے گا اور دوسرے حکم پر تمھارا سر قلم کرا دیا جائے گا"

میرے سوال لکھ لو۔وزیر نے جلدی جلدی لکھنا شروع کیا۔

  1. انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟

  2. انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے ؟

  3. انسان کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟

بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور باآواز بلند کہا :

تمھارا وقت شروع ہوتا ہے اب…. 

وزیر نے فوراً باہر کی طرف دوڑ لگا دی ۔

وزیر نے اگلے ہی دن سب دانشور ،ادیب ، مفکر جمع کیے اور ان کے آگے بادشاہ کے پوچھے گئے سوالات رکھے ۔

مگر کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا ۔

وزیر نے اگلے دن دانشور،ادیب اور مفکر کی تعداد بڑھا دی، مگر پھر کوئی جواب نہ مل سکا ۔

اس طرح وزیر تعداد بڑھاتا گیا مگر جواب نہ مل سکے ۔

تنگ آ کر وزیر دارالحکومت چھوڑ کر باہر نکل گیا ۔

وزیر سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا،مگر اسے تسلی بخش جواب نہ مل سکا ۔ شہر شہر گاؤں گاؤں کی خاک چانتا رہا ۔شاہی لباس پھٹ گیا ۔ پگڑی کھل کر گلے میں آپڑی اور پاؤں میں چھالے پڑ گئے۔

وہ مایوسی کے عالم میں دارلحکومت کی کچی بستی میں پہنچ گیا ۔ تیسواں دن آن پہنچا تھا ۔ وزیر کو اپنی موت صاف نظر آرہی تھی ۔ اُسے جواب نہیں ملے تھے ۔اور بادشاہ کے حکم کے مطابق  اسکا سر قلم کر دیا جانا تھا ۔

چلتے چلتے وزیر ایک فقیر کی جھونپڑی میں جا پہنچا ۔ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا ۔پاس ہی اسکا کتا شڑاپ شڑاپ کی آواز کے ساتھ پیالے سے دودھ پی رہا تھا ۔

وزیر کو دیکھتے ہی فقیر نے مسکرا کر کہا آو آؤ تمھارے سوالوں کے جواب ہیں میرے پاس ۔

وزیر کی حیرت میں ڈوبی آواز اُبھری 

تمہیں کیسے پتا کہ میں  کسی سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں ؟ اور اسی تلاش میں یہاں تک آیا ہوں ؟

فقیر نے مسکرا کر روٹی واپس چھابے میں رکھی اور اپنا بچھونا اٹھاتے ہوئے کہا یہ دیکھیے آپ کو سب معلوم ہو جائے گا۔

بچھونے کے نیچے شاہی خلعت پڑی تھی ۔ جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراہ کو عنایت کرتا ہے ۔

فقیر نے کہا میں بھی اسی سلطنت کا وزیر تھا ۔ آپکی طرح بادشاہ سے شرط لگا بیٹھا تھا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

فقیر نے اس کے بعد دوبارہ سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور کھانا شروع کر دیا ۔

وزیر نے دکھی دل کے ساتھ پوچھا کہ کیا آپ بھی سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں ناکام رہے تھے ؟

فقیر مسکرایا اور بولا 

نہیں میرا معاملہ زرا مختلف ہے ۔

میں نے جواب ڈھونڈ لیے تھے۔ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے ۔ دوسرے حکم کا پروانہ پھاڑا اور آ کر اس کٹیا میں آ بیٹھا ۔ 

میں اور میرا کتا دونوں مطمٔن زندگی گزار رہے ہیں ۔

وزیر کی حیرت بڑھ گئی ۔مگر یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا ۔

جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی ۔ اس نے فقیر کے آگے فریاد کی تھی کہ اسے جواب بتائے ۔

فقیر نے کہا ٹھیک ہے ۔ میں پہلے دو سوالوں کے جواب تمھیں مفت دوں مگر ایک سوال کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

وزیر نے ہامی بھر لی۔

پھر فقیر نے بولنا شروع کیا

پہلے سوال کا جواب 

" دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔ انسان کوئی بھی ہو کیسا بھی ہو اس سچائی سے بچ نہیں سکتا"

دوسرے سوال کا جواب 

"انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اسکے دھوکے میں آ جاتا ہے "

فقیر کے دونوں جواب ناقابلِ تردید تھے ۔ وزیر سرشار ہو گیا اور تیسرے جواب کی قیمت پوچھی

فقیر نے مسکرا کر اپنے کتے کی طرف دیکھا اور پھر دودھ کے پیالے کی طرف،،،

اور وزیر سے کہا تمیں آخری سوال کا جاننے کیلئے اس دودھ کے پیالے کو پینا ہوگا ۔ جو میرا کتا پی رہا تھا ۔

وزیر نے نفرت بھرے تاثرات کے ساتھ پیالے کو دیکھا تھا ۔

فقیر نے اسکے تاثرات دیکھ کر فوراً کہا 

اب یہ تمھاری مرضی ہے یا تو یہ دودھ پی کر جواب جان لو اور اپنی جان بچا کر آدھی سلطنت کے مالک بن جاؤ ۔

یا پھر انکار کر کے بادشاہ کے حضور حاضر ہو کر اپنا سر قلم کروا لو ۔

وزیر عجیب الجھن کا شکار تھا ۔ ایک طرف جان و مال تھا اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ اور سیلف ریسپیکٹ ۔ 

وہ سوچتا رہا ، سوچتا رہا یہاں تک کہ جان و مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئ۔

وزیر نے دودھ پی لیا اور فقیر سے جواب کا مطالبہ کیا۔

فقیر نے قہقہ لگایا اور جواب دیا 

انسان کی سب سے بڑی کمزوری اسکی غرض ہے ۔

جو یہ کتے کا جوٹھا دودھ بھی پینے پر مجبور کر دیتی ہے ۔

اور یہ ہی وہ سچ ہے جس نے مجھے دوسرا پروانہ پھاڑ کر یہاں اس کٹیا میں آ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ میں جان گیا تھا کہ میں جوں جوں اس دنیا کے دھوکے میں آو گا موت کو فراموش کرتا جاؤ گا ۔اور جتنا موت کو فراموش کرتا جاؤ گا اتنا اس غرض کی دلدل میں دھنستا چلاجاؤ گا ۔ مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کیلئے غرض کا جوٹھا دودھ پینا پڑے گا ۔ لہزا میرا مشورہ ہے کہ دنیا کی اس حقیقتوں کو جان لو زندگی آسان ہو جائے گی۔

وزیر خجالت ، دکھ ،شرمندگی اور خود ترسی کا تحفہ لے فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا۔ 

جوں جوں محل قریب آرہا تھا وزیر کے ضمیر پر بوجھ بڑھ رہا تھا ۔

اور پھر بادشاہ سمیت پورے دربار نے ان سوالات کے ساتھ ساتھ زندگی کی حقیقت سنی تھی اور ایک وزیر کے ہاتھوں آدھی سلطنت کا پروانہ پھٹتے دیکھا تھا اور ایک اور راہی کو اصل منزل کی طرف جاتے دیکھاتھا ۔ جو مال کی غرض سے پاک اور زندگی کی حقیقتوں سے بھرپور تھا ۔


ہمیں بھی اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم بھی زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے ؟

 ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیھٹے؟

ہم کہیں اس کہانی کر وزیر تو نہیں بن گئے ؟

مجھے یقین ہے ہم نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن ہم ان غرض کے پیالوں سے بالاتر وہ جائے گے!!!

"بے شک وقت پہ کیا گیا احتساب بعد کے پچتاوں سے بہتر ہے" 






Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سچ کڑوا ہوتا ہے؟

Nobody's Thinking About You

قربِ الٰہی